زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی

زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی
گھر بسا لوں گا تو تنہائی چلی جائے گی
آنکھ کھلتے ہی عجب کشمکشِ ہجر میں ہوں
خواب دیکھوں گا، تو بینائی چلی جائے گی
جسکے حصے کے بھی دکھ ہوں، مرے سینے میں اتار
پھر سمندر سے یہ گہرائی چلی جائے گی
وحشتیں یوں ہی الجھتی رہیں گلیوں سے تو پھر
بَین کرتی ہوئی شہنائی چلی جائے گی
حد سے بڑھ جائیں گی بیمارئ دل کی باتیں
یار لوگوں سے مسیحائی چلی جائے گی
تیرے بارے میں کوئی رائے کہاں سے لاؤں
جھوٹ بولوں گا تو سچائی چلی جائے گی

سلیم کوثر

Comments