عشق بت سے بھی تھا خدا مطلب

عِشقِ بُت سے بھی تھا خُدا مطلب
اور واللہ کُچھ نہ تھا مطلب
ایک دِیدار ہے مِرا مطلب
دُوسرا ہے نہ تِیسرا مطلب
ماننے کو تو مَیں نہیں کہتا
جانِ من سُن تو لو زرا مطلب
خط مِرا کُچھ اِدھر اُدھر سے پڑھا
بِیچ سے وہ اُڑا گیا مطلب
وصل کے نام پر کہا کیا خُوب
جو مِری چِڑھ وہ آپ کا مطلب
اُس سے آنکھوں میں ہو گئیں باتیں
بے بارت ادا ہُوا مطلب
ایک جان اور حسرتیں لاکھوں
ایک دِل اور ہزارہا مطلب
مُنھ لگے کون روز ناصح کے
بات سمجھے نہ بات کا مطلب
کیوں مِلائیں وہ آنکھ اب ہم سے
لے چُکے دِل نِکل گیا مطلب
یہ ادب کا لحاظ تھا شبِ وصل
دِل سے لب تک نہ آسکا مطلب
عیش ہو اور امیرؔ کا آقا
ہے یہ بندے کا یا خُدا کا مطلب

امیر مینائی

Comments