اے محبت ترا جواب نہیں

اے محبت ترا جواب نہیں
ترے جیسا کوئی جناب نہیں
تیری آنکھوں نے گفتگو کی ہے
اس سے بڑھ کر کوئی خطاب نہیں
بس خیالوں کی بات ہے صاحب
ہاں مکمل ہوئے یہ خواب نہیں
گل چمن میں کھلے بہت سارے
کوئی تیری طرح گلاب نہیں
چوم جائیں جو دیکھنے والے
اس صراحی میں وہ شراب نہیں
موت تکلیف دہ تو ہے لیکن
زیست جیسا کوئی عذاب نہیں
ایک دریا ہے ریت کا زہراء
اس سے آگے کوئی چناب نہیں
زہراء بتول

Comments