اکیلے دونوں جہاں کو سنبھال رکھا ہے

یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے
اکیلے دونوں جہاں کو سنبھال رکھا ہے
سیاہ گیسو کو شانوں پہ ڈال رکھا ہے
بلا کا سانپ سپیرے نے پال رکھا ہے
مجھے تو حشر کے وعدے پہ ٹال رکھا ہے
اجل کا نام بدل کر وصال رکھا ہے
یہ دن کے دوش پہ بکھری ہیں شام کی زلفیں
کہ اک مچھیرے کے کاندھے پہ جال رکھا ہے
جس آفتاب کو سمجھے تھے سب کہ ڈوب گیا
اسے گلاس میں رندوں نے ڈھال رکھا ہے
یہ کون ایسی پری ہے کہ جس کو رندوں نے
زمیں سے تا بہ ثریا اچھال رکھا ہے
ہماری توبہ کا خوں ہے کہ بادۂ رنگیں
یہ جام جام میں کیا لال لال رکھا ہے
زمانہ دیتا ہے مجھ کو زوال کی دھمکی
نہ جانے کون سا مجھ میں کمال رکھا ہے
نذیرؔ مر کے چکانا پڑے گا قرض حیات
نہیں گر آج تو کل انتقال رکھا ہے

نذیر بنارسی

Comments