جس سے تم سگریٹ سلگاتے تھے

لوگوں کو چقماق بناتے تھے
تم قصّے میں آگ لگاتے تھے

آدھے جب سُولی پر لائے گئے
باقی آدھے ڈھول بجاتے تھے

پھر اُس شے نے گھر ہی دیکھ لیا
جس سے تم سگریٹ سلگاتے تھے

تختے نے پہچان لیا ہو گا
تم پیڑوں پر تیر چلاتے تھے

کوئی کرنی پیچھا کرتی تھی
اور ناکردہ آگے آتے تھے

ان کی ساری شرطیں مان کے بھی
ہم بس اپنی خیر مناتے تھے

تجھ پر کیسے ظاہر ہو جاؤں
تیرے آبا نقش اُٹھاتے  تھے 

آزادی نے تنہا کر ڈالا
پنجرے میں تم آتے جاتے تھے

حمیدہ شاہین

Comments