جو ڈوبنا ہے تو پھر تیرے نام پر ہی سہی

ہزار موجہء سیلاب پُر خطر ہی سہی
جو ڈوبنا ہے تو پھر تیرے نام پر ہی سہی
کبھی یہاں بھی چمن تھا یہاں بھی رونق تھی
گزر رہے ہو تو اس سَمت اِک نظر ہی سہی
نہ منزلوں کو تمنا نہ راستوں کی خبر
نکل پڑے ہیں تو پھر کوئی رہگزر ہی سہی
کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی
کبھی تو لے ہی اُڑوں گا قفس کو ساتھ اپنے
ہنوز مجھ کو تمنائے بال و پَر ہی سہی
تمہاری آنکھ میں کیفیتِ خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی
زمانہ تِیرہ و تاریک ہے ــ مگر مَیں کون؟
مری چمک سے اُجالا نگر نگر ہی سہی
بہت اُداس ہے ہر ایک رہگزر شہزادؔ
کدھر کو جائیں ہم آمادہء سفر ہی سہی

شہزاد احمد

Comments