ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ، ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مِرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل، کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشمِ تر سے، عمربھر یُوں دم بہ دم نکلے
نکلنا خُلد سے آدم کا سُنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اُس طُرّۂ پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط ، تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح، اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دَور میں منسُوب مُجھ سے، بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ ، جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توّقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
محبّت میں نہیں ہے فرق، جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دَم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ !
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالب

Comments