Paradox

نظم "Paradox "
گُلزار
مجموعہ کلام "چاند پُکھراج کا"
میں چھاؤں چھاؤں چلا تھا بدن بچانے کو
کہ اپنی رُوح کو کوئی لباس دے پاؤں
نہ جس میں سِلوٹ، نہ داغ چمکے
نہ دُھوپ جُھلسائے، جس کے دَم سے
نہ زخم چُھوئے، نہ درد جاگے
بس ایک کوری سَحر ھی پہنا دُوں رُوح کو میں
مگر تپی دوپہر جو زخموں کی، درد کی دُھوپ سے جو گُزرا
تو رُوح کو چھاؤں مِل گئی ھے
عجیب ھے درد اور تسکیں کا سانجھا رشتہ
مِلے گی چھاؤں تو بس کہیں دُھوپ میں مِلے گی!

Comments