آئینے کا سکوت سمندر لگا مجھے

آئینے کا سکوت سمندر لگا مجھے
جس سے کلام کرتے ہوے ڈر لگا مجھے

کیا رات تھی وہ پچھلے دسمبر کی دوستو
جب چودھویں کا چاند گداگر لگا مجھے

اترا چراغِ سبز لیے جب میں باغ میں
پھولوں کا رنگ پہلے سے بہتر لگا مجھے

اس جنگ جو نے نام بتایا نہیں مگر
چہرے کی تاب و تب سے سکندر لگا مجھے

جب میں گرا زمین پہ جھک آئیں ٹہنیاں
ثروت وہ نخلِ سبز، پیمبر لگا مجھے

ثروت حسین

Comments