تھپکیاں دے کے امنگوں کو سلانا تھا ہمیں

تھپکیاں دے کے اُمنگوں کو سُلانا تھا ہمیں
اپنا سرمایہ دل بھی تو بچانا تھا ہمیں
ہم کو ہر گام پہ رکھنا تھا محبت کا بھرم
ہر قدم سوچ کے رکھنا تھا،اُٹھانا تھا ہمیں
روشنی کتنے ھی رنگوں میں بکھر جاتی ھے
ایک منشور ھی بس،راہ میں لانا تھا ہمیں
تجھ سے کر بیٹھے تھے اِقرار،پھر نہ ملنے کا
یہ نہ سوچا تھا کہ وعدہ بھی نبھانا تھا ہمیں
ایسی کمزور تو ثاقب نہ تھی یادداشت اپنی
بس یہی یاد نہیں اُس کو بُھلانا تھا ہمیں
"ثاقب مجید"

Comments