جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں

سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہنر یار کے رکھ دیتے ہیں
شاید آ جائیں کبھی چشم خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں
تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں
اب کسے رنج اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گل و گلزار کے رکھ دیتے ہیں
ذکر جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسئلے بے کار کے رکھ دیتے ہیں
وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہل دل بھی
طاق نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں
زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں

احمد فراز

Comments