کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے

کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن ملے صورتیں بدل کے
یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غم جہاں میں ڈوبے
وہی جام جام ہے جو بغیر فرق چھلکے
نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے
یہ چراغ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تو جلا وہ شمع اے دل جو بجھے کبھی نہ جل کے
کوئی اے خمارؔ ان کو مرے شعر نذر کر دے
جو مخالفین مخلص نہیں معترف غزل کے

خمار بارہ بنکوی

Comments