کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے

کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشہء جاں تھا پہلے
اب بھی توُ پاس نہیں ہے لیکن
اِس قدر دوُر کہاں تھا پہلے
اب وہ دریا،نہ وہ بستی،نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں ‌تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں ‌تھا پہلے؟

"ناصر کاظمی"

Comments