ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں​

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیئے ہیں​
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیئے ہیں​

جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُنکی آنکھیں​
جلتے بجھا دیئے ہیں ، روتے ہنسادیئے ہیں​

اک دل ہمارا کیا ہے آزار اُس کا کتنا​
تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلادیئے ہیں​

اُنکے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو​
جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں​

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہونگے​
اب تو غنی کے در پر بستر جمادیئے ہیں​

اسرا میں گزرے جس دَم بیڑے پہ قدسیوں کے​
ہونے لگی سلامی پرچم جھکادیئے ہیں​

آنے دو یا ڈبو دو، اب تو تمہاری جانب​
کشتی تمہِیں پہ چھوڑی ، لنگر اٹھا دیئے ہیں​

دولہا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکو​
مشکل میں ہیں براتی پُرخار بادیے ہیں​

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا​
رو رو کے مصطفےٰ نے دریا بہا دیئے ہیں​

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا​
دریا بہادیئے ہیں ، دُر ، بے بہا دیئے ہیں​

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلَّم​
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہیں​

احمد رضا خان بریلوی

Comments