پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں

پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں
تیری تکریم بھی لازم ہے شبِ اوجِ وصال
پر یہ ڈر ہے کہ یہ لمحے نہ ٹھکانے لگ جائیں
کچھ نمو کے بھی تقاضے ہیں سرِ کشتِ خیال
ورنہ ہم لوگ تو بس خاک اُڑانے لگ جائیں
ایک لمحے کی ملاقات کے خاموش سفر!
ان کہے لفظ نہ اب شور مچانے لگ جائیں
وہ رفاقت، وہ فسانہ، وہ تماشا، وہ خلوص
کوئی عنوان تلاشیں تو زمانے لگ جائیں
ہم سمجھتے ہیں ستم زاد قبیلوں کو نوید
پیڑ سرسبز، گھنا ہو تو گرانے لگ جائیں

نوید صادق

Comments