شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا

شبِ وصال میں دُوری کا خواب کیوں آیا
کمالِ فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا
دِلوں میں اب کے بَرس اِتنے وہم کیوں جاگے!
بلادِ صبر میں، اب اِضطراب کیوں آیا
ہے آبِ گِل پہ عجب، اِس بہارِ گُزراں میں !
چمن میں اب کے گُلِ بے حساب کیوں آیا
اگر وہی تھا، تو رُخ پر وہ بے رُخی کیا تھی
ذرا سے ہِجر میں، یہ اِنقلاب کیوں آیا
بس ایک ہُو کا تماشا تمام سمتوں پر
مِری صَدا کے سفر میں، سراب کیوں آیا
مُنیرؔ نیازی

Comments