ڈوب جائے نہ مری ناؤ بچا لے مجھ کو

ڈوب جائے نہ مری ناؤ، بچا لے مجھ کو
یوں نہ کر درد کی  لہروں کے حوالے مجھ کو
میں کِسی اُجڑی ہوئی شاخ کا ٹوٹا پتا
کوئی روندے یا سمیٹے کہ جلالے  مجھ کو
بھول جاؤں گی غمِ ہجر کی تلخی یکسر
صرف اِک بار گلے آ کے لگا لے مجھ  کو
ہنس کے ہر درد کے صحرا سے گزر کر آئی
روک پائے نہ یہ رِ ستے ہوئے چھالے  مجھ کو
روٹھنے والے تو اب اتنی بھی تاخیر نہ کر
وقت کی گرد ہی نہ تجھ سے چھپا لے مجھ کو
دِل کے صحرا کو نہ مل جائے برستا بادل
تو کسی زُعم میں کھو دے نہ، بچا لے مجھ کو
میں اذیت کے کٹہرےمیں ہوں چپ چاپ کھڑی
طعنہ دیتے ہیں زباں پر لگے تالے مجھ کو
ایک وعدے میں ہر اک سانس پڑی ھے گروی
کوئی لفظوں کی اذیت سے نکالے مجھ  کو
اب نہ کھولوں گی کبھی ضبط کے بندھن مولا
جس کا دل چاہے وہی آکے ستا لے مجھ  کو
میری گُستاخ مزاجی سے ھے برہم دنیا
کر یہ احسان تو دنیا سے اٹھا لے مجھ کو
فوزیہ شیخ

Comments