میری ہر ایک صبح کو روز حساب کر دیا

میری ہر ایک صبح کو، روزِ حساب کر دیا
تیرہ دِلانِ شہر نے جینا عذاب کر دیا
دل پر گزر گئی ہے کیا اُس کو خبر نہیں کوئی
وہ تو امیرِ شھر ہے اُس نے خطاب کر دیا
مرکز و محورِ حیات میں نے جسے بنا لیا
وہ تو بس ایک باب تھا میں نے کتاب کر دیا
اُس کی جو یاد آگئی،خوشبو بکھر بکھر گئی
موجِ ہوا نے ، ابر نے ، جشنِ گُلاب کر دیا

"سیدہ آمنہ بہار"

Comments