ہر مصیبت جو کھڑی کی انھی کے خو نے کی

ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی
اُس پہ ہَٹ دھرمی ہر اِک بار یہ، کہ تُو نے کی

شرم دُورآنکھوں سے اپنوں کی ہائے ہُو نے کی
اور کچھ، اَوچھوں سے تکرار و دُو بَدُو نے کی

اِک جہاں کی رہی خواہش سی مجھ سے مِلنے کی
یُوں مِرے عِشق کی تشہیر ماہ رُو نے کی

کچھ تو پُر برگ و ثمر تھا میں اپنی محنت سے
کچھ اعانت مِری، اجداد کے لہُو نے کی

لایا پھل،اُس کو ہر اِک شے پہ دسترس، کا یقیں
تشنگی دُور جو صحرا میں آبِ جُو نے کی

تھوڑی عزّت ہُوئی حاصِلِ نہ تھوڑا پیار جہاں
خِدمت اُس گھر کی بھی، کچھ کم نہیں بَہُو نے کی

سارےکام اب کریں احباب ذمّہ داری سے
میرے زخموں کو ضرُورت نہیں ہے چُونے کی

بُرے ہُوں لاکھ وہ، مہلک کبھی نہ ہونگے خلشؔ
پروَرش جِن کی تِری امّی اور ابُو نے کی
شفیق خلشؔ​

Comments