عمر انکار کی دیوار سے سر پھوڑتی ہے

عمر انکار کی دیوار سے سر پھوڑتی ہے
رنج یہ ہے اسے آیا نہ سلیقہ اپنا
ایک دن رات کے اسرار کھلیں گے ہم پر
شک کی بوچھار سے چھلنی ہوا سینہ اپنا
خرد بینوں سے کئی داغ چھپائے اپنے
غم گساروں نے کوئی بھید نہ پایا اپنا
اپنی کھوئی ہوئی آواز رسائی مانگے
جاں اسے الجھا ہے کوئی نغمہ رسیلا اپنا
نیند وہ ریت کی دیوار کہ مسمار ہوئی
اپنی آنکھوں میں چھپا رکھا ہے صحرا اپنا
زندگی ایک گزرتی ہوئی پرچھائیں ہے
آئنہ دیکھتا رہتا ہے تماشا اپنا
برگ آواز کے مانند اڑیں گے یہ پہاڑ
غرق ہوجائے گا پانی میں جزیرہ اپنا
خواب دیکھا تھا کہ ہم ہوں گے بچھڑنے والے
منہدم ہوگئے پر خواب نہ ٹوٹا اپنا
چاند کی طرح کئی داغ ہیں پیشانی پر
موت کے سامنے مہتاب ہے چہرا اپنا

ساقی فاروقی

Comments