غم عشق اگر ملا تھا تو کبھی قرار ہوتا

غمِ عشق اگر ملِا تھا تو کبھی قرار ہوتا
کوئی زور دل پہ ہوتا، کوئی اختیار ہوتا



 وہ کہیں اگر سرہانے دمِ احتضار قرار ہوتا
تو یقین تھا کہ مرنا مِرا یادگار ہوتا
مِرے بعد جمع کرتے وہ خطوطِ شوق میرے
یہ صحیفۂ محبت کبھی یادگار ہوتا
وہ کسی کا اٹھ کے جانا وہ مِرا یہ رو کے کہنا
تمہیں کیوں میں جانے دیتا اگر اختیار ہوتا
وہ عزیزؔ سے یہ کہہ کر پسِ پردہ چھپ گئی ہیں
تم ادا شناس ہوتے، تو کچھ اعتبار ہوتا
عزیز لکھنوی

Comments