وہ مرے غم سے آشنا ہو جائے

وہ مرے غم سے آشنا ہو جائے
اِس سے پہلے کہ انتہا ہو جائے

میں اُسے دیکھتا رہوں اور وہ
دیکھتے دیکھتے مرا ہو جائے

اِس سے آگے جنوں اضافی ہے
دشت کو چاہیے بڑا ہو جائے

لیجیے رات کاٹ دی ہم نے
اب کسی دِن کی ابتدا ہو جائے

دیکھ کے چل یہاں کہ ممکن ہے
لغزشِ پا ہی نقشِ پا ہو جائے

شہر کا حال دیکھنا عادلؔ
جب وہ درویش لاپتا ہو جائے
ذوالفقار عادل

Comments