مرے چراغ کو یہ وہم کھائے جاتا ہے

مرے چراغ کویہ وہم کھائے جاتا ہے
کہ اس کو ہاتھ ہوا کا بلائے جاتا ہے

میں اپنے جسم کی سرحد میں گھٹتا جاتا ہوں
وہ مملکت کو انا کی بڑھائے جاتا ہے

چمک رہا ہے فلک پر بس اک ستارہ ہجر
شبِ سیاہ مری جگمگائے جاتا ہے

میں ایسے ہاتھ کی تعظیم کر نہیں سکتا
جو آسماں سے پرندے گرائے جاتا ہے

میں سب سے ناتواں انسان ہوں قبیلے کا
پر اک جنوں مجھے میداں میں لائے جاتا ہے

اسعد بدایونی

Comments