ترے ذوق نے وہ ثمر مری تہی ڈالیوں پہ لگا دیا

ترے ذوق نے وہ ثمر مری تہی ڈالیوں پہ لگا دیا 
مرا عہد میری سخن وری کی جگالیوں پہ لگا دیا



 اسے کیا غرض کہ کہانی اس کی گرفت میں نہیں آ رہی 
جہاں بھولے اس نے مکالمے ہمیں تالیوں پہ لگا دیا
اسے زہر دے کے بچا لیا کہ وہ زہر اگلے زبان سے
وہ بھری ہوئی تھی غبار سے اسے گالیوں پہ لگا دیا
کسی بے ضرر کو عطا نہیں ہوئی اس کے باغ کی افسری 
وہ جو پھول توڑنے آئے تھے انھیں مالیوں پہ لگا دیا
مجھے شک ہے تیرے سنار پر نہیں لگ رہے مجھے یہ گہر 
کہیں چاند تو نہیں کاٹ کر تری بالیوں پہ لگا دیا
اظہر فراغ

Comments