خیال گھومتا تھا یوں خیالِ یار کے گرد

خیال گھومتا تھا یوں خیالِ یار کے گرد 
زمین گھومتی ہے جس طرح مدار کے گرد



 غریب زادیاں ٹاپوں کی دھول چھانتی تھیں
کہانی دوڑتی تھی ایک گھڑ سوار کے گرد
وجودِ یار کو کعبہ مثال سمجھا تھا 
ہر اک طواف تھا میرا وجودِ یار کے گرد
وہ سانحہ تھا کہ سب کو دلاسہ دینا پڑا
ہجوم لگ گیا بستی میں  گریہ زار کے گرد
کئی دھنیں تھیں جو قسمت پہ رشک کرتی تھیں
جب اس کی ناچتی تھیں انگلیاں گٹار کے گرد
حسین شخص ہے اس پہ بلا کا چرب زبان
ہزاروں ہونگیں اس کے گرد  ، وہ ہزار کے گرد
انہیں گمان ہے تم نے پلٹ کے آنا ہے
جمی ہوئی ہیں جو نظریں تمہاری کار کے گرد
تو لکھ کے بھیجے گا کومل کہ اعتبار تو کر
میں ایک دائرہ کھینچوں گی اعتبار کے گرد
کومل جوئیہ

Comments