ویرانے کو وحشت زندہ رکھتی ہے

ویرانے کو وحشت زندہ رکھتی ہے
دِل کو ایک محبت زندہ رکھتی ہے



آئینے کو زندہ رکھتا ہوں میں اور
مجھ کو میری حیرت زندہ رکھتی ہے

دیواروں کو، دروازے کو، آنگن کو
گھر آنے کی عادت زندہ رکھتی ہے

صحرا میں بھی آنکھیں خشک نہیں ہوتیں
دریاؤں سے نسبت زندہ رکھتی ہے

اپنے آپ سے کہتا ہوں، میں زندہ ہوں
اور یہی اِک صورت زندہ رکھتی ہے

شور سے پہچانا جاتا ہے شہروں کو
شور کو ایک شکایت زندہ رکھتی ہے
ذوالفقار عادل

Comments