روپ بدل کر جانے کس پل کیا بن جائے مائے نی

رُوپ بدل کر، جانے کِس پل، کیا بن جائے ،مائے نی

دِل کا آخِر آ پہنچا ہے، درد کہاں تک جائے نی

اُس کے بعد تو میں تھا، جس نے جنگل بیلے چھانے تھے

میرے بعد اب کون ہے ایسا، جو رانجھا کہلائے نی

میں بھوکے کا بھوکا آخِر، دن نکلے یا شام ڈھلے

روٹی، سالن پی جائے اورسالن، روٹی کھائے نی

کیا دیکھا اور کیا نہ دیکھا، یاد نہیں، کچھ یاد نہیں

نینوں کے کہنے میں آکر، ہم نے نیر بہائے نی

دنیا، دِل میں،دِل،دنیا میں، کون اِن میں تفریق کرے

وقت کا پہیّہ گھوم رہا ہے، چرخہ کون گھمائے نی

اِک جوگی کے روگی بن کر، رستے میں آبےٹھر ہیں

چار دنوں کا وقت ہے سارا، جانے وہ کب آئے نی

ایسے روٹی سالن سے تو چولھا ٹھنڈا اچھا ہے

اُس بالن کا کیا کرنا، جو گھر کو آگ لگائے نی

دِل تختی پر، عشق زباں میں، پلکوں سے اور اشکوں سے

کہے حسین فقیر سئیں دا، عادلؔ لکھتا جائے نی

( نذر شاہ حسین )
ذوالفقار عادل

Comments