جمال پر حجاب خد و خال کر دیا گیا

جمال پر حجابِ خد و خال کر دیا گیا
نگاہ دے کے دیکھنا محال کر دیا گیا
کمال سارے مائلِ زوال کر دئیے گئے
زوال تھا کہ جسے لازوال کر دیا گیا
ہمارے خالی ہاتھ میں تھما کے کاسۂ طلب
جواب کیا دیا گیا سوال کر دیا گیا
دیا گیا اگرچہ آپ چشمۂ بقا ہمیں
مگر شکستہ برتنوں میں ڈال کر دیا گیا
ترا کرم ہے زندگی تو پھر وہ لوگ کون ہیں
کہ جن پہ یہ کرم ترا وبال کر دیا گیا
ہمیں تری عنایتوں سے ہیں بڑی شکایتیں
ہمیں ہمارا رزق بھی اچھال کر دیا گیا

سید مبارک شاہ

Comments