دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے
صبر کا جام پی لیا ہم نے
کیسے انساں، کس کی آزادی
سر پہ الزام ہی لیا ہم نے



 لو بدل دو حیات کا نقشہ
اپنی آنکھوں کو سی لیا ہم نے
حادثاتِ جہاں نے راہ نہ دی
آپ کا نام بھی لیا ہم نے
اور کیا چاہتے ہیں وہ باقیؔ
خونِ دل تک تو پی لیا ہم نے

باقی صدیقی

Comments