خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں

خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں
قید رکھتی ہیں خواہشات ہمیں



 میں نے مانگی سکون کی چادر
رنج بولے کہ بیٹھ، کات ہمیں
کچھ تو عادت ہے بے یقینی کی
اور کچھ ہیں تحیرات ہمیں
اس تعلق کا سچ قبول کیا
جوڑتی ہیں ضروریات ہمیں
یونہی جھگڑا طویل ہوتا گیا
سُوجھتی جا رہی تھی بات ہمیں

حمیدہ شاہین

Comments