کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں

کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں
دل کی دھڑکن ہے کہ آسیب بلا ہے دل میں
اب کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو بھلا تم اس کو
وہ تو آنکھوں کی نمی بن کے چھپا ہے دل میں

خشک آنکھوں کو ابھی رونے کی حسرت ہے بہت
اس کو تھمنے دو، جو کہرام مچا ہے دل میں
اتنے سناٹے میں آواز کا دَم گھٹتا ہے
اور ایسے میں بھی اک حشر بپا ہے دل میں
وہ جدا ہو کے کچھ اس درجہ قریب آ پہنچا
اب تو بس ایک وہی ہے کہ بسا ہے دل میں
اتنی سنسان ڈگر ہے، کہ تکے جاتا ہوں
کوئی رستہ ترے رستے سے ملا ہے دل میں
تُو گیا ہے تو مجھے میرا پتا دے جاتا
خود مجھے جیسے کوئی ڈھونڈ رہا ہے دل میں
دشتِ جاں میں ہے شبِ تار بھی آندھی بھی متین
ایک غم ہے کہ دِیا جس کا جلا ہے دل میں

اقبال متین

Comments