یہ کیسی تیرگی ہے کہ چبھتی ہے آنکھ میں

یہ کیسی تیرگی ہے کہ چبھتی ہے آنکھ میں
اب ہو بھی جائے صبح کہ سویا نہیں ہوں میں
دیکھا نہیں ہے خود کو سرِ منزلِ یقیں
جنگل میں واہموں کے تو کھویا نہیں ہوں میں
عرصہ ہوا کہ بوجھ سا سینے پہ ہے مرے
مدت ہوئی کہ دوستو! رویا نہیں ہوں میں
مجھ کو ہر ایک شخص پہ جس کا گمان تھا
وہ مجھ کو یوں مِلا ہے کہ گویا نہیں ہوں میں
سویا بھی ہوں تو آنکھ میں تیرے ہی خواب تھے
یعنی کبھی بھی چین سے سویا نہیں ہوں میں

سید مبارک شاہ

Comments