بس کہ آغاز محبّت میں ہوا کام اپنا

بس کہ آغازِ محبّت میں ہُوا کام اپنا
 پُوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا
عُمر کٹتی ہے تصوّر میں رُخ و کاکل کے
 رات دِن اور ہے، اے گردشِ ایّام اپنا
واں یہ قدغن، کہ نہ آوازِ فُغاں بھی پُہنْچے
یاں یہ شورش کہ،  گُزارا ہو لبِ بام اپنا
اُن سے نازک کو، کہاں گرمیِ صُحبت کی تاب
بس کلیجا نہ پکا،  اے طَمَعِ خام اپنا
تَپشِ دِل کے سبب سے ہے مجھے خواہشِ مرگ
 کون ہے جس کو نہ منظوُر ہو آرام اپنا
بادہ نوشی سے ہماری، جو لہُو خُشک ہُوا
 خُونِ اغیّار سے لبریز ہے کیا جام اپنا
لُطف سمجُھوں تو بَجا، جَور بھی سمجُھوں تو درست
 تم نے بَھیجا ہے مِرے پاس جو ہم نام اپنا
ذکرِ عُشّاق سے آتی ہے جو غیرت اُس کو
 آپ عاشِق ہے مگر وہ بُتِ خود کام اپنا
تاب بَوسے کی کسے شیفتہ! وہ دیں بھی اگر
کر چُکی کام یہاں لذّتِ دُشنام اپنا
.
نواب محمد مُصطفیٰ خان شیفتہ

Comments