جب ضبط کروں دل سے نکلتی ہے فغاں اور



جب ضبط کروں دل سے نکلتی ہے فغاں اور
میں آگ بجھاتا ہوں تو اٹھتا ہے دھواں اور
تم دل کے نگر میں اسے ڈھونڈو گے کہاں اور
وہ شخص تو ہر روز بدلتا ہے مکاں اور
بادل ہے وہ پل پل بدلتا ہے ہوا سے
کیا اس کا بھروسہ ہے ، یہاں اور وہاں اور
اس جسم سے مٹتے ہی نہیں وصل کے آثار
میں ہاتھ لگاتا ہوں تو پڑتے ہیں نشاں اور
جب دو گے دل و جاں تو خبر تب تمہیں ہو گی
لینا دل و جاں اور ہے، دینا دل و جاں اور
شاید کہ فلک شدتِ حدت سے چٹخ جائے
اک آہ ذرا زور سے اے غم زدگاں اور
تم مانگ میں افشاں تو ذرا وصل کی بھر لو
ممکن ہے کہ بن جائے کوئی کاہکشاں اور
کچھ پھول کھلائے تو ہیں غالب کی زمیں میں
دو چار گھڑی آئے نہ اے کاش خزاں اور
نذرانہ سخن کا یہ عدیم اس کے لیے ہے
وہ جس کا زمانے میں ہے اندازِ بیاں اور
رک جاؤ عدیم ، اپنا سخن سنگ بنا لو
بھاگو گے تو بڑھ جائے گی آوازِ سگاں اور

عدیم ھاشمی

Comments