لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں

لَو مدینے کی تجلّی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلعِ انوار بنائے ہوئے ہیں

اِک جھلک آج دِکھا گنبدِ خضرٰی کے مکِیںﷺ
کچھ بھی ہے دُور سے دِیدار کو آئے ہوئے ہیں

سر پہ رکھ دیجے ذرا دستِ تسلّی آقاﷺ 
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں

بوسۂ دَر سے نہ روک ان کو تو اب اے دربان
خود نہیں آئے ، یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں

نام آنے سے ابوبکؓر و عمرؓ کا لَب پر
کیوں بِگڑتا ہے ، وہ پہلُو میں سُلائے ہوئے ہیں

حاضر و ناظر و نُور و بشر و غیب کو چھوڑ
شُکر کر وہ تیرے عیبوں کو چُھپائے ہوئے ہیں

کٹ گیا ہے تیری تعلیم سے رشتہ اپنا
صرف رسم و رہِ دُنیا ہی نِبھائے ہوئے ہیں

قبر کی نیند سے اُٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں

تیری نِسبت کی بدولت ہی تو ہم جیسے لوگ
کُفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں

کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ
اب تو میزان پہ سرکارﷺ بھی آئے ہوئے ہیں

پیر نصیر الدین نصیرؔ

Comments