اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا 

اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا 
جب تجربے ہوتے ہیں تو دھوکا نہیں ہوتا 
جس لفظ کو میں توڑ کے خود ٹوٹ گیا ہوں 
کہتا بھی تو وہ اس کو گوارا نہیں ہوتا 
تیری ہی طرح آتا ہے آنکھوں میں ترا خواب 
سچا نہیں ہوتا کبھی جھوٹا نہیں ہوتا 
تکذیب جنوں کے لیے اک شک ہی بہت ہے 
بارش کا سمے ہو تو ستارا نہیں ہوتا 
کیا کیا در و دیوار مری خاک میں گم ہیں 
پر اس کو مرا جسم گوارا نہیں ہوتا 
یا دل نہیں ہوتا مرے ہونے کے سبب سے 
یا دل کے سبب سے مرا ہونا نہیں ہوتا 
کس رخ سے تیقن کو طبیعت میں جگہ دیں 
ایسا نہیں ہوتا کبھی ویسا نہیں ہوتا 
ہم لوگ جو کرتے ہیں وہ ہوتا ہی نہیں ہے 
ہونا جو نظر آتا ہے ہونا نہیں ہوتا 
جس دن کے گزرتے ہی یہاں رات ہوئی ہے 
اے کاش وہ دن میں نے گزارا نہیں ہوتا 
جب ہم نہیں ہوتے یہاں آتے ہیں تغیر 
جب ہم یہاں ہوتے ہیں زمانا نہیں ہوتا 
ہم ان میں ہیں جن کی کوئی ہستی نہیں ہوتی 
ہم ٹوٹ بھی جائیں تو تماشا نہیں ہوتا

محسن اسرار

Comments