پھول تو پھول یہاں خار بدل جاتے ہیں 

پھول تو پھول یہاں خار بدل جاتے ہیں 
خوف میں لوگوں کے کردار بدل جاتے ہیں
آپ اقرار بدلنے کا نہ روئیں رونا 
وقت بدلے گا تو انکار بدل جاتے ہیں
تم بدلتی ہو فقط رخ تو مری جان _ غزل 
پھر مری غزل کے اشعار بدل جاتے ہیں
دل لگاتے ہیں بڑی چاہ سے سب پہلے پہل 
بعد میں لوگوں کے افکار بدل جاتے ہیں
ایک وہ دور تھا لوگوں کا بدلتا تھا دل 
ایک یہ دور ہے دلدار بدل جاتے ہیں
ہم ہیں پتھریلے علاقے کی روایت کے امیں
لوگ وہ اور ہیں جو پیار بدل جاتے ہیں
ایک نیت نہ بدل پایا ہوں میں سالوں سے
تیرے تیور ہیں جو سو بار بدل جاتے ہیں
راستہ ہی تو ہے منزل تو نہیں نجمی کی
آپ کہتے ہیں تو سرکار بدل جاتے ہیں
نجم الحسن نجمی

Comments

Post a Comment