رنگ اور نور کی تمثیل سے ہو گا کہ نہیں

رنگ اور نور کی تمثیل سے ہو گا کہ نہیں
شب کا ماتم مری قندیل سے ہو گا کہ نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ جنگل کو چلانے کے لۓ
مشورہ ریچھ سے اور چیل سے ہو گا کہ نہیں

آیت تیرہ شبی پڑھتے ہوۓ عمر ہوئی
سامنا اب بھی عزرائیل سے ہو گا کہ نہیں

زرد مٹی مین اترتی ہوئی اے قوس قزح
خواب پیدا تری ترسیل سے ہو گا کہ نہیں

اوس کے پھول مہکتے ہیں تری آنکھوں میں
ان کا رشتہ بھی کسی نیل سے ہو گا کہ نہیں

جب سخن کرنے لگوں گا میں تجھے عصر رواں
استعارہ کوئی انجیل سے ہو گا کہ نہیں
دانیال طریر

Comments