سخن کروں گا میں تجھ سے،یہ کائنات ہٹا




سخن کروں گا میں تجھ سے،یہ کائنات ہٹا
 تُو میری بات کے رستے سے اپنی بات ہٹا
میں اُس کو دیکھ بھی سکتا تھا ، چُھو بھی سکتا تھا
 جب ایک موڑ پہ میرا حجابِ ذات ہٹا
ہزار رنگ کے منظر دکھائی دیں گے تجھے
 بس آفتاب کے رستے سے ایک رات ہٹا
تمام کھیل کا انجام جانتا ہوں میں
 یہاں بساط تو رکھ دے،یہ جیت مات ہٹا
وہ لڑکھڑایا ، جُھکا اور گر کے ٹوٹ گیا
 جونہی پہاڑ کے شانے سے میرا ھاتھ ہٹا
میں تِیرہ غار کو روشن سمجھتا رہتا تھا
 پھر ایک روز اچانک یہ سنگِ ذات ہٹا
بہت عجیب سفر ھے یہ زندگی کا سفر
 کسی کی نفرتیں رکھ لے کچھ التفات ہٹا
چلا بھی آ کہ فقیروں کے دل کشادہ ہیں
 سب احتیاط پرے رکھ ، تکلفات ہٹا
وہ شہرِ حسن کا حاکِم بھی آئے گا نیّر
 تُو پہلے دل کی سڑک سے تجاوزات ہٹا
شہزاد نیّر

Comments