اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے 



اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے 
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے 
کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں 
موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے 
راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں 
یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے 
میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے 
آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس کا ہے 
وہی تپتا ہوا صحرا وہی سوکھے ہوئے ہونٹ 
فیصلہ کون کرے آب رواں کس کا ہے 
چند رشتوں کے کھلونے ہیں جو ہم کھیلتے ہیں 
ورنہ سب جانتے ہیں کون یہاں کس کا ہے

معراج فیض آبادی

Comments