غم سبھی دل سے لگائے اور اٹھ کر چل دیے 

غم سبھی دل سے لگائے اور اٹھ کر چل دیے 
 شب تری محفل میں آئے اور اٹھ کر چل دیے
حشر اٹھا سکتے تھے ہم تیرے رویے پر مگر 
 بس ذرا سا مسکرائے اور اٹھ کر چل دیے
رہ گئیں تجھ خوش نوا کی کتنی باتیں ناتمام
 رہ گئی ٹیبل پہ چائے اور اٹھ کر چل دیے
تھی کوئی منزل نہ کوئی راستہ معلوم تھا 
 پھر بھی تھوڑا کسمسائے اور اٹھ کر چل دیے
ہوگئی کالی سرائے ، بجھ گئی جب لالٹین 
 ہم اٹھے گردن جھکائے اور اٹھ کر چل دیے
ضبط کرتے کس طرح سے وہ مرے سچے سخن 
 اچھے خاصے تلملائے اور اٹھ کر چل دیے
اک ذرا سا کام تھا اس انجمن میں افتخار 
 زخم سینے کے دِکھائے اور اٹھ کر چل دیے
افتخار حیدر

Comments