آئینہ خانے کو زنگار نگل جاتا ہے 

آئینہ خانے کو زنگار نگل جاتا ہے 
کھیل کو کھیل کاکردار نگل جاتا ہے 

آج کے دور میں اخلاص کے کیا معنی ہیں
آستینوں کا کوئی مار نگل جاتا ہے 

بھوک دیتی ہے اچانک جو کبھی دستک تو 
اپنے فن کو مرا فنکار نگل جاتا ہے 

رات بھر اپنے ارادوں کے بناتا ہوں پہاڑ
صبح مجھ کو یہی انبار نگل جاتا ہے 

کیسے اب اس سے بچا ؤں گا میں نسلیں اپنی
میرے بچوں کو یہ زردار نگل جاتا ہے 

ہم پہ تاریخ یہ ہر بار ستم کرتی ہے 
کوئی احساس سرِ دار نگل جاتا ہے 

جھوٹ کو بھی تو کسی روز مٹا سکتے ہیں
سچ کو جیسے کوئی انکار نگل جاتا ہے 

ایک نادارقلم کار گیا جاں سے مگر
ایسی خبروں کو تو اخبار نگل جاتا ہے 

اپنی ہی ذات سے ہوں برسرِ پیکار شعیبؔ 
ایک عِفریت ہے ہر بار نگل جاتا ہے

شعیب خان

Comments