صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا



صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا
یہ وار مجھ پہ ہوا بھی تو غائبانہ ہوا
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے
میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا
جھلس رہا تھا بدن گرمئ نفس سے مگر
ترے خیال کا خورشید شامیانہ ہوا
خود اپنے ہجر کی خواہش مجھے عزیز رہی
یہ تیرے وصل کا قصہ تو اک بہانہ ہوا
خدا کی سرد مزاجی سما گئی مجھ میں
مری تلاش کا سودا پیمبرانہ ہوا
میں اک شجر کی طرح رہ گزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا
وہ شخص جس کے لیے شعر کہہ رہا ہوں نصیرؔ
غزل سنائے ہوئے اس کو اک زمانہ ہوا
نصیر ترابی

Comments