جہالتوں کے اندھيرے مٹا کے لوٹ آیا

جہالتوں کے اندھيرے مٹا کے لوٹ آیا
 میں آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا



یہ سوچ کر کہ وہ تنہائی ساتھ لائے گا
 میں چھت پہ بیٹھے پرندے اڑا کے لوٹ آیا
وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہوگی
 میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا
خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
 میں جس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
 میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

راحت اندوری

Comments