میں ملوں گا اپنے وجود سے اسی سبز پیڑ کی چھاؤں میں 

میں ملوں گا اپنے وجود سے اسی سبز پیڑ کی چھاؤں میں 
 وہ درخت کتنا عظیم ہے کبھی آکے دیکھنا گاؤں میں
میں فقیر ایسا فقیر ہوں کہ میں اپنے من میں اسیر ہوں 
 نہ کھنکتی ہیں مری بیڑیاں نہ دھمک ہے میری کھڑاؤں میں
جو مئے الست کا جام ہے وہ ازل سے میرے ہی نام ہے 
نہ خمار ہے ، نہ ہی ہوش ہےکہ میں ہوں عجیب  فضاؤں میں
جو دیارِ حسن کی باس ہے وہ مرے مزاج کو راس ہے 
 مجھے اس نگر سے نکال مت مرا نام لکھ لے گداؤں میں
تو کہاں کا دشت نورد ہے تو کہاں کا عشق مزاج ہے 
 نہ ہی ہونٹ پیاس سے خشک ہیں نہ ہی آبلے ترے پاؤں میں
وہ گئے زمانوں کی دیویاں وہ محبتوں کی نشانیاں 
 انھیں افتخار تلاش کر وہ یہیں کہیں ہیں گپھاؤں میں
افتخار حیدر

Comments