جس طرف بھی ملاوٹ کی رسد ہے، رد ہے



جس طرف بھی ملاوٹ کی رسد ہے، رد ہے
ایک رتی بھی اگر خواہشِ بد  ہے، رد ہے
دکھ دیئے ہیں زرِ خالص کی رسد نے لیکن
 جس تعلق میں کہیں کینہ و کد ہے، رد ہے
امن لکھنا نہیں سیکھیں ، جنہیں پڑھ کر بچّے
 ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہے، رد ہے
جب چڑھائی پہ میرا ہاتھ نہ تھاما تُو نے
 اب یہ چوٹی پہ جو بے فیض مدد ہے، رد ہے
اس لگاوٹ بھرے لہجے کی جگہ ہے دل میں
تہنیت میں جو ریا اور حسد ہے، رد  ہے
اپنی سرحد کی حفاظت پہ ہے ایمان مگر
زندگی اور محبت پہ جو حد ہے، رد  ہے
اس سے کہنا کہ یہ تردید کوئی کھیل نہیں
جو میری بات کو دہرائے کہ رد ہے، رد ہے
حمیدہ شاہین

Comments