جھوٹی تسلیوں پہ شب غم بسر ہوئی

جُھوٹی تسلّیوں پہ شبِ غم بَسر ہُوئی
اُٹّھی چمک جو زخم میں سمجھا سَحر ہُوئی
ہر ہر نَفَس چُھری ہے لئے قطعِ شامِ ہجر
یا آج دَم نِکل ہی گیا، یا سَحر ہُوئی
بدلِیں جو کروَٹیں تو زمانہ بدل گیا
دُنیا تھی بے ثبات، اِدھر کی اُدھر ہُوئی
جاتی ہے روشنی، مِری آنکھوں کو چھوڑ کے
تارے چُھپے،وہ سَو کے اُٹھے،وہ سَحر ہوئی
پہلے یہ جانتا تھا ،کہ زخمی نہیں ہے دِل !
جب دے دِیا رَگوں نے لہُو، جب خبر ہُوئی
کِس مُنہ سے رَوؤں مَیں دِل ِحسرت نصیب کو
جب مر گیا غریب، تو مجھ کو خبر ہُوئی
جاوید! بُوئے گُل کو ہَوا آ کے لے گئی
کلیوں کو غم ہُوا، نہ گُلوں کو خبر ہُوئی
۔
جاویؔد لکھنوی

Comments