لذت ہجر لے گئی وصل کے خواب لے گئی

لذتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی
قرض تھی یادِ رفتگاں، رات حساب لے گئی​
جامِ سفال پر مری کتنی گرفت تھی مگر
آب و ہوا ئے روز و شب، خانہ خراب، لے گئی​
صحبتِ ہجر میں گھری جُنبشِ چشمِ سُرمگیں
خُود ہی سوال کر گئی ،خُود ہی جواب لے گئی​
تِشنہ خرامِ عشق پر ابَر کے سائے تھے مگر
عرصۂ بےگیاہ تک چشمکِ آب لے گئی​
کارِ جہاں سے رُوٹھ کر پھر تری یاد کی ہوس
شاخِ نہالِ زخم سے بُوئے گُلاب لے گئی​
پہلے ہوا کے زِیرو بم ہم کو قریب کر گئے
پھر ہمیں ساحلوں سے دُور، یورشِ آب لے گئی​
موجۂ وقت سے نڈھال ڈُوب رہے ہیں خدّو خال
ساعتِ حیلہ جُو سلیم عہدِ شباب لے گئی​
 سلیم کوثر​

Comments