نظم امجد اسلام امجد

دریچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کی چلمن ہے
اور اس چلمن کے پیچھے چھپ کے بیٹھے
کچھ ستارے ہیں ستاروں کی
نگاہوں میں عجیب سی ایک الجھن ہے
وہ ہم کو دیکھتے ہیں اور پھر آپس میں کہتے ہیں
یہ منظر آسماں کا تھا یہاں پر کس طرح پہنچا
زمیں ذادوں کی قسمت میں یہ جنت کس طرح آئی؟
ستاروں کی یہ حیرانی سمجھ میں آنے والی ہے
کہ ایسا دلنشیں منظر کسی نے کم ہی دیکھا ہے
ہمارے درمیاں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
اسے لفظوں میں لکھیں تو کتابیں جگمگااٹھیں
جو سوچیں اس کے بارے میں توروحیں گنگنا اٹھیں
یہ تم ہو میرے پہلو میں
کہ خواب زندگی تعبیر کی صورت میں آیا ہے؟
یہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپنی مسکراہٹ سے جہاں میں روشنی کردے
لہو میں تازگی بھردے
بدن اک ڈھیر ریشم کا
جو ہاتھوں میں نہیں رکتا
انوکھی سی کوئی خوشبو کہ آنکھیں بند ہو جائیں
سخن کی جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائیں
چھپا کاجل بھری آنکھوں میں کوئی راز گہرا ہے
بہت نزدیک سے دیکھیں تو چیزیں پھیل جاتی ہیں
سو میرے چار سو دو جھیل سی آنکھوں کا پہرا ہے
 تمہیں میں کس طرح دیکھوں
امجد اسلام امجد

Comments