ڈر لگتا ہے ٹوٹ نہ جائے سپنوں والی باڑ

ڈر لگتا ہے ٹوٹ نہ جائے سپنوں والی باڑ
پاؤں پڑی ہے پیار کے کچے دھاگوں والی باڑ

چاٹ رہی ہے دیمک بن کر جینے کی خواہش
کاٹ رہی ہے رگ رگ اندر سانسوں والی باڑ

کیسے پریت کے بندھن باندھیں دیش دیش کے لوگ
سرحد سرحد لگی ہوئی ہے کانٹوں والی باڑ

دروازے سے لوٹ آئی ہیں پھر آنکھیں مایوس 
ٹوٹ گئی ہو جیسے کسی کے وعدوں والی باڑ

پنکھ لگا کر دل کرتا ہے اڑوں میں پربت پار
روک رہی ہے مجھ کو زمیں پر رشتوں والی باڑ

رات کو جب میں دیکھ کے سویا تیری آنکھوں کو
خواب میں دیکھی قوس قزح کے رنگوں والی باڑ

جلتے دئیے ہوں طاق میں جیسے چہرے میں آنکھیں 
شانوں کی دیوار پہ پھیلی زلفوں والی باڑ

چاند اکیلا جیسے طریرؔ اور سڑک کے گرد اشجار 
جیسے رات کو آسمان پر تاروں والی باڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال طریر


Comments